KeyOfIslam
Welcome To KeyOfIslam.com. KeyOfIslam is the platform to spread love and brotherhood among all people through the light of Prophet Mohammad(peace be upon him), the Final Messanger of Allah. Here you will get informations with precision.
Individual Articles
عزیمت و رخصت کا شرعی حکم
عزیمت و رخصت کا شرعی حکم ____________ از رشحات قلم مفتی اشرف رضا نعیمی راج محلی آج کل کچھ نام نہاد لوگ شہرت کی دہلیز پر کھڑے ہونے کے لۓ سوشل میڈیا پر بذریعہ تحریر وتقریر اعلی حضرت عظیم المرتبت امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمۃ جیسے عظیم محقق ، مجدد اور فقید المثال فقیہ کے فتاوی کے ساتھ اختلاف کے نام سے کھلواڑ کرنا شروع کردیا ہے ۔ ایک صاحب ابھی چند دن پہلے کچھ نامور شخصیتوں کے سامنے اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمۃ کا ایک فتوی یعنی" عورتوں کا زیارت قبور کیلئے جانا منع ہے۔" اسی فتوی پر موصوف نے ایک رائے پیش کی کہ عورتوں کا زیارت قبور و مزارات کے لیئے جانا اصح قول پر رخصت ثابت ہے ، اور اسی اصح قول کا سہارا لیکر انہوں نے ان حضرات کے سامنے عورتوں کو زیارت قبور کیلئے جانے پر تلقین بھی کرتے ہوئے نظر آئے ۔ کہ عورتیں ضرور قبروں اور مزاروں کی زیارت کیلئے جائیں ۔ انھوں نے جو دلیل پیش کی وہ یہ ہے ملاحظہ فرمائیں ۔ وصرح في المجتبي بانها مندوبة وقيل تحرم على النساء والاصح ان الرخصة ثابتة لهما۔ ترجمہ : اور المجتبی میں صراحت ہے کہ زیارت قبور مستحب ہے ، اور بعض فقہاء نے فرمایا کہ عورتوں کا زیارت قبور کے لیے جانا حرام ہے، اور اصح قول یہ ہے کہ ان کے لیے رخصت ثابت ہے۔ (بحر الرائق ٢١٠/٢) آئیے موضوع بحث سے پہلے عزیمت و رخصت کو اصول فقہ کی روشنی میں جانتے ہیں ۔ بعدہ اس پر تفصیلی کلام کریں گے انشاء اللہ تعالی ۔ الشیخ علامہ احمد بن ابی سعید ملا جیون رحمہ اللہ تعالی المتوفی ١١٣٠ ھ ، اپنی معروف و مشہور کتاب نور الانوار میں فرماتے ہیں۔ المشروعات على نوعين عزيمة يعني ان الاحكام المشروعة التي شرعها الله تعالى لعباده على نوعين احدهما العزيمة والثاني الرخصة فالعزيمة وهي اسم لما هو اصل منها غير متعلق بالعوارض يعني لم يكن شرعها باعتبار العوارض كما كان شرع الافطار باعتبار المرض بل يكون حكما اصليا من الله تعالى ابتداء سواء كان متعلقا بالفعل كالمامورات او متعلقا بالترك كالمحرمات ترجمہ : احکام مشروعہ دو قسموں پر منقسم ہیں, قسم اول عزیمت ہے یعنی وہ احکام شرعیہ جن کو اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر مشروع فرمایا ، وہ دو قسم پر ہیں، اول عزیمت دوم رخصت، لہذا عزیمت اس چیز کا نام ہے جو احکام شرعیہ میں اصل ہے اور عوارض سے متعلق نہیں ہے یعنی اس کی مشروعیت عوارض کی وجہ سے نہ ہوئی ہو ، جس طرح روزہ میں افطار مرض کے عارض کی وجہ سے مشروع ہوا بلکہ عزیمت ابتداء ہی سے حکم اصلی ہے خواہ فعل سے متعلق ہو جیسے مامور بہ یا ترک سے متعلق ہو جیسے محرمات (نور الانوار, ص ١٦٩) مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا کہ عزیمت ابتدا ہی سے حکم اصلی ہے ، جیسا کہ قوله تعالی " فمن شهد منكم الشهر فليصمه ترجمہ : تو تم میں جو کوئی اس مہینہ کو پائے تو اس کے ضرور روزے رکھے ۔( سورہ البقرہ آیت ١٧٥) اسی طرح حدیث النبي صلى الله عليه وسلم "لعن اللہ زوارات القبور " ترجمہ :اللہ تعالی کی لعنت ہے ان عورتوں پر جو قبروں کی زیارت کے لیے جائیں (عمدۃ القاری شرحِ البخاری ٦٩/٨) ابتداء خاص عورتوں کے لیئے ممانعت پر ہے ۔ لہذا یہ حکم اصلی ہے اور ترک سے متعلق ہے۔ پھر اسی میں ملا جیون رحمه الله تعالى رخصت کی تفصیل میں فرماتے ہیں ۔ وتفصيله ان الرخصة الحقيقية هي التي تبقي عزيمته معمولة فكلما كانت العزيمة ثابتة كانت الرخصة ايضا في مقابلتها حقيقة ففي القسمين الاولين لما كانت العزيمة موجودة معمولة في الشريعة كانت الرخصة في مقابلتها ايضا حقيقة ثابتة ثم في القسم الاول منها لما كانت العزيمة موجودة من جميع الوجوه كانت الرخصة ايضا حقيقة من جميع الوجوه بخلاف القسم الثاني فان العزيمة فيها موجودة من وجه دون وجه فلا تكون الرخصة احق ايضا وفي القسم الاخرين لما فاتت العزيمة من البين ولم تكن موجودة كانت الرخصة في مقابلتها مجازا الخ ترجمہ: اس کی تفصیل یہ ہے کہ رخصت حقیقیہ وہ ہے کہ جس کی عزیمت پر عمل باقی رہے ، لہذا جب کبھی عزیمت ثابت ہوگی تو اس کے مقابلہ میں رخصت حقیقیہ بھی باقی رہے گی، لہذا پہلی دونوں قسموں میں جب عزیمت شریعت میں موجود اور معمول بہا ہے تو رخصت بھی اس کے مقابلہ میں حقیقۃ ثابت رہے گی، پھر پہلی قسم میں جبکہ عزیمت من کل الوجوہ موجود رہے گی تو رخصت بھی من کل الوجوہ موجود ہوگی بخلاف دوسری قسم کے کہ اس میں عزیمت من وجہ دون وجہ موجود ہوتی ہے لہذا رخصت بھی پورے طور پر ثابت نہ ہوگی اور بعد کی دو قسموں میں جب عزیمت درمیان سے فوت ہو گئی تو اس کے مقابلہ میں رخصت بھی مجازاً ہوگی۔ (نور الانوار ١٧٢) پھر مجتہد . فقیہ ، قاضي حضرت نظام الدین الشاشی المتوفی۳٤٤ھ اپنے معروف و مشہور کتاب اصول الشاسی میں فرماتے ہیں اما الرخصة فعبارة عن اليسر والسهولة وفي الشرع صرف الامر من عسر الى يسر بواسطة عذر في المكلف وانواعها مختلفة لاختلاف اسبابها وهي اعذار العباد وفي العاقبة تؤول الى نوعين احدهما رخصة الفعل مع بقاء الحرمة بمنزلة العفو في باب الجناية وذلك نحو اجراء كلمة الكفر على اللسان مع اطمنان القلب عند الاكراه وسب النبي عليه السلام واتلاف مال المسلم وقتل النفس ظلما وحكمه انه لو صبر حتى قتل يكون ماجورا لامتناعه عن الحرام تعظيما لنهي الشارع عليه السلام ترجمہ: رخصت کا معنی آسانی اور سہولت ہے، جبکہ اصطلاح شرع میں اس حکم کو کہتے ہیں جس کو مکلف ہونے کی وجہ سے آسانی کی طرف پھیر دیا گیا ہو ، یعنی جو چیز مکلف کے لیے عذر ہو ۔ اور رخصت کے اسباب کے مختلف ہونے کی وجہ سے اس کے اقسام بھی مختلف ہیں اور وہ بندوں کے عذر ہیں ،جبکہ انجام کے طور پر اس کی دو اقسام ہیں ایک رخصت وہ ہے جس میں فعل کی رخصت بقائے حرمت کے ساتھ رہتی ہے، یہ جنایت کے احکام میں معافی کے حکم میں ہے، اور اسی طرح مجبوری کے وقت اطمینان قلب کے ہوتے ہوئے زبان پر کفر کا جاری کرنا ہے، اور اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بے ادبی ہے اور مسلمانوں کا مال ضائع کرنا اور کسی جان کو ظلم کے طور پر قتل کرنا ہے رخصت کی اس قسم کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ شخص صبر کرتا ہے اور قتل کیا جاتا ہے تو اس پر اجر دیا جائے گا ۔کیونکہ شارع علیہ السلام کی ممانعت کی وجہ اور شریعت اسلامیہ کی تعظیم کے لیئے اس نے اپنے اپ کو حرام سے روکا ہے (اصول الشاشی ١٠٥ ذکر کردہ بالا تصریحات سے واضح ہوا کہ رخصت حقیقیہ کا حکم خواہ فعل پر ہو یا ترک پر ، اس کے مقابل عزیمت پر عمل لازمی طور پر باقی رہے گا چنانچہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا " فمن شهد منكم الشهر فليصمه ترجمہ : تو تم میں جو کوئی اس مہینہ کو پائے تو ضرور اس کے روزے رکھے ۔ یہ عزیمت ہے ۔ اور "فمن كان مريضا او على سفر فعدة من ايام اخر اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھے۔ یہ رخصت ہے۔ اور یہ رخصت سخت مجبوری میں ہے ۔یعنی کہ مرض اور سفر کی حالت میں اور اس کا ذکر قران کریم میں ہے اس کے باوجود روزہ رکھنا ہی افضل واولی ہے۔ یعنی کہ ہر حال میں رخصت کے بالمقابل عزیمت پر ہی عمل اولی ہے ۔ صرف استثناء اس وقت ہے جب روزہ اس مریض کو بہت زیادہ کمزور بنا دے۔ یا جہاد میں ہو۔اور قصر کی وجوبیت پر تو خود خبر موجود ہے جیسا کہ نور الانوار میں ہے ۔ الا ان يضعفه الصوم استثناء من قوله الاخذ بالعزيمة اولى يعني ان عندنا العزيمة اولى في كل حين الا ان يضعفه الصوم فحينئذ الفطر اولى بالاتفاق ترجمہ: مگر جب روزہ اسے زیادہ کمزور بنا دے یہ عبارت" الاخذ بالعزیمۃ اولی" سے استثنا ہے ۔ یعنی ہمارے فقہائےاحناف کے نزدیک عزیمت پر عمل کرنا ہر حال میں اولی ہے ۔ لیکن اگر روزہ اسے کمزور بنا دے تو افطار اس وقت بالاتفاق اولی ہے۔ (نور الانوار) اب ایک حدیث بھی دیکھئے جسے محمد بن عبداللہ ولی الدین التبریزی رحمہ اللہ تعالی نے مشکوة المصابيح میں تحریر فرمایا ہے ۔ عن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم لعن زوارات القبور رواه احمد والترمذي وابن ماجة وقال الترمذي هذا حديث حسن صحيح وقال قد راى بعض اهل العلم ان هذا كان قبل ان يرخص النبي صلى الله عليه وسلم في زيارة القبور فلما رخص دخل في رخصته الرجال والنساء وقال بعضهم انما كره زيارة القبور للنساء لقلة صبرهن وكثرة جزعهن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہیں جس کو احمد ۔ترمذی اور ابن ماجہ روایت کئے ہیں ۔ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن اور صحیح ہے اور فرمایا کہ بعض اہل علم نے کہا کہ یہ حکم اس سے پہلے تھا ۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زیارت قبور کیلئے رخصت فرمائی تو اس اجازت میں مرد و عورت سب اگئے بعض نے فرمایا عورتوں کے لیے زیارت قبور ان کے صبر کی کمی اور بے صبری کی زیادتی کی وجہ سے مکروہ ہے (مشکوة المصابيح ١٥٤ ) اسی طرح "لعن اللہ زوارات القبور" یعنی کہ اللہ تعالی کی لعنت ہے ان عورتوں پر جو قبروں کی زیارت کے لیے جائیں۔ یہ عزیمت ہے ۔ اور "فزوروھا لانها لتذكر الموت" یعنی قبروں کی زیارت کرو کیونکہ اس سے موت یاد آتی ہے ۔بقول فقہاء اس حکم میں عورتیں بھی داخل ہیں ۔ یہ رخصت ہے۔ والاصح ان الرخصۃ ثابثۃ لھما "یعنی عورتوں کے زیارت قبور کیلئے جانے پر رخصت ثابت ہے۔ یہاں پر اہل علم حضرات توجہ فرمائیں کہ جب اصح قول پر رخصت ثابت ہے ، تو اس کے بالمقابل عزیمت ، اسی اصح قول کی بنا پر ہی ضرور ثابت ہوگی ۔ پھر تو یہ بھی ثابت ہوگی کہ اصح قول پر عورتوں کے زیارت قبور کے لیۓ نہ جانا ہی افضل واولی ہے۔ اور عزیمت پر عمل کرنے والے اور صبر کرنے والے عند اللہ ماجور بھی ہوں گے۔ جیسا کہ شیخ الاسلام علامہ برہان الدین مرغینانی رحمه الله تعالى اپنی کتاب ہدایہ میں فرماتے ہیں لكن من راه ثم لم يمسح أخذا بالعزيمة كان ماجورا یعنی کہ جس نے عزیمت پر عمل کرتے ہوئے مسح نہیں کیا ، اور اس کی مدت میں پیر دھویا تو عند اللہ ماجور ہوں گے۔ (الهدايه اولين ٤٠ ) پتا چلا کہ ان خیر کے زمانے میں بھی عورتوں کا زیارت قبور کے لیے نہ جانا افضل و اعلی تھا۔ اور موصوف نے جس اصح قول کے سہارا لیکر عورتوں کے زیارت قبور کے لیے جانا صرف اور صرف رخصت و مباح سمجھا اور سمجھانے کی ناکام کوشش کی ہے، وہ ایک تعجب خیز اور سراسر غلط ہے ، اور کیوں نہ غلط ہو ! جس ملک کے علمائے کرام مفتیان عظام عورتوں کو زیارت قبور و مزارات سے روکنے پر طاقت صرف کرتے ہیں ، ایسے پر سکون اور متفقہ ماحول میں جناب والا کس دلیل سے عورتوں کو زیارت قبور و مزارات کے لیے جانے پر تاکید و تلقین کرتے ہیں ؟ کیا یہ علمائے اہل سنت وجماعت کے ساتھ تصادم مول لینا نہیں ہے ؟ حالانکہ رخصت حقیقیہ کے مقابلہ میں عزیمت پر عمل باقی رہتا ہے اور وہ بھی بمنزلہ اولی باقی رہتا ہے۔ بعض حضرات نے اگر کچھ مسائل میں تحقیق کیئے ہیں تو اپنے دعوی پہ دلیل ،امام اہل سنت امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالی کے فتاوی سے توڑ مروڑ کر کے ہی سہی پیش کئے ہیں ۔ اور پورے طور پر منطبق نہ ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں۔ اور جناب والا کی جرات تو دیکھیئے کہ براہ راست امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ سے اختلاف کر بیٹھے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں اسے موصوف کا مشورہ کہوں یا فتویٰ ؟ فرماتے ہیں کہ ماحول کو سازگار کرنا چاہئے اور عورتوں کو قبر و مزار سے روکنا نہیں چاہئے ۔ معلوم نہیں جناب والا کس جزئیہ اور کس قاعدہ سے بات کرتے ہیں، کہ فقہائے عظام کے قاعدہ " درء المفاسد اهم من جلب المصالح " سے بھی صرف نظر کر گۓ پھر طرفہ یہ کہ اپنے عدیم الفہمی پر اتنی خوش فہمی کہ جناب والا امام اہل سنت امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالی سے اختلاف کر کے اپنے آپ کو محقق سمجھنے لگا ہے ۔ تعجب ہے ۔ واضح ہو کہ جو کچھ بیان ہوا اصول فقہ کی قدرے تفصیل تھی جو امام اہل سنت امام محمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالی کی نظر دوربین سے پوشیدہ نہیں ، مگر ان کے ساتھ ساتھ زمانے کے فتنہ و فساد غالب ہونے کی وجہ سے ممنوع کا حکم بھی غالب ہوا ۔برسوں پہلے ایک مستفی نے استفتاء کیا جو بذاتِ خود جید مفتی ہیں اور مجیب بھی ہیں اور وہی سوال تھا ، جو آج موصوف کا خود ساختہ جواب ہے ۔ سوال حاضر خدمت ہے ملاحظہ فرمائیں۔ اب تطبیق سمجھ لیجئے کہ گربے گانے والی قوالی سننے والی عورتوں کے لیئے زیارت قبور اولیاء کو جانا حرام اور فیض الہی لینے والی عورتوں کو با پردہ شریعت کے احکام کو بجا لا کر کرنا جائز۔ میں نے مسئلہ کو اس طرح مشرح بیان کیا ہے کہ اسے اپ صحیح سمجھتے ہیں یا میری سمجھنے میں غلطی ہے مجھے سمجھائیے : آپ میرے مربی اور قبلہ و کعبہ حاجات ہیں خدائے تعالی اپ کو صحت کلیہ عاجلہ عطا فرمائے۔ آمین جناب والا بھی یہی جملہ کہتے ہیں نا ؟ کہ عورتوں کو باپردہ شریعت کے احکام بجا لا کر قبروں اور مزاروں کو جانا مباح اور رخصت ہے ۔ اب امام اہل سنت امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالی کے جواب ملاحظہ کیجئے ۔ تحریر فرماتے ہیں ۔ پہلے گزارش کر چکا کہ عبارات رخصت میری نظر میں ہیں، مگر نظر بحال زمانہ میرے نہ میرے بلکہ اکابر متقدمین کے نزدیک سبیل ممانعت ہی ہے اور اسی کو اہل احتیاط نے اختیار فرمایا۔ (فتاوی رضویہ ٥٤٧/٩) مذکورہ ان جملے سے ظاہر ہو گیا کہ اعلی حضرت کی نظر میں صرف ممانعت والی عبارت نہیں تھی، بلکہ جن عبارتوں سے عورتوں کے لیے زیارت قبور کی رخصت کا استنباط و ثبوت ہو سکتا ہے وہ بھی سامنے ہیں، اور جن دلائل سے ممنوع ہونا ثابت ہوتا ہے وہ بھی سامنے ہیں، سب پیش نظر رکھتے ہوئے اکابر متقدمین علماء کی طرح خود بھی ممانعت ہی کا فیصلہ فرمایا کہ عورتوں کے لیے زیارت قبور کو جانا ممنوع ہے ۔ اب بتایۓ کہ اس قدر صریح الفاظ کے ہوتے ہوۓ وہ بھی آج سے سوسال پہلے کا زمانہ جو اس زمانے سے بہرحال اچھا تھا ، اور محتاط فقہائے متقدمین نے رخصت پر نہ عمل کیا اور نہ حکم دیا، تو پھر آپ اس دور میں کیسے رخصت پر حکم دے رہے ہیں اور عمل کی تاکید بھی کر رہے ہیں؟ جناب والا ! ذرا ہوش کے ناخن لیں فتوی دیتے وقت حالات زمانہ کو پیش نظر رکھیں ، اسی لۓ فقہاء نے فرمایا من لم یعرف اھل زمانہ فھو جاھل اللہ تبارک و تعالی لوگوں کے ساتھ خیر کرنے اور خیر پر عمل کرنے کی توفیق خیر عطا فرماۓ نیز ہم سب کو اپنے کرم اور اپنے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے وسیلے سے شریعت مطہرہ کی روشنی میں سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، امین یا رب العالمین بجاہ اشرف الانبیاء والمرسلین ۔ فقیر محمد اشرف رضا نعیمی نائب قاضی؛ ادارہ شرعیہ دارالقضاء والافتاء راج محل جھارکھنڈ

Comments -

Most Read Articles